جنسی خواہش ایک فطری اور جبّلی تقاضہ ہے ۔ یہ جنسی تقاضا انسان کے دیگر دوسرے تقاضو ں کے مقابلے میں اگر چہ بہت شدید اور فتنہ سامان ہے ، لیکن کمزور اور ثانوی درجہ کا واقع ہوا ہے۔ حیا تیا تی بھوک ( پیٹ کی غذا ) سب سے بڑا انسانی تقاضا اور خواہش ما نی گئی ہے ۔ اسی طر ح امن اور تحفظ سے زندہ رہنے کی خواہش بھی ہے ۔ ان خوا ہشات کے مقابلہ میںجنسی خواہش بہر حال زیا دہ سخت اور تیز و تند نہیں ہوتی ۔ یہ بات تجر بات سے ثابت ہو چکی ہے کہ انسان ساری زندگی جنسی آسو دگی حاصل کئے بغیر تو گزار سکتا ہے لیکن غذا اور امن کے بغیر زیا دہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا ۔ ہما رے معاشرے اور تہذیب کی سب سے بڑی ضرورت امن اور غذا کی فراہمی ہے ۔ حفظ امان اور غذا کے معاملا ت میں اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اتنی برائی اور فتنہ پیدا نہیں ہوسکتا لیکن جنسی اختلاط اور حر ص کو جنسیا ت کے معاملات میں اگر کھلی اجازت دے دی جائے تو انسانی تہذیب کی بنیا د ہی منہدم ہو جائے گی۔ نہ کسی کو ما ں کی تمیز رہ جائے گی اورنہ بیٹی کی۔ جہا ں پا یا، جس کو پا یا، جس طر ح چاہا ،جب چاہا ہو س پو ری کرلی ۔ جیساکہ آج مغر بی دنیا میں اور دیگر بعض علا قو ں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ ایک مر د ایک غیر عورت کے ساتھ دوستی کے نام پر سب طر ح کی زندگی اس طر ح بسر کر رہا ہے کہ جا نو ر بھی شرما جائیں ۔
آزادی بغیر پا بندی کے آزادی نہیں بلکہ انار کی اور طوائف الملو کی ہے ۔ یہ بات آپ کو کتنی ہی مہمل کیو ں نہ لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پابندیو ں میں جکڑا ہو اانسان جس طر ح آزادی حاصل کرنے کو اپنا پیدا ئشی حق سمجھتا ہے بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیا دہ آز ادی میں پا بندیو ں کے ساتھ رہنا بھی ضروری ہے ۔ مثلاً آپ ریل پر سفر کر رہے ہیں ۔ آدھی را ت ہو چکی ہے ، آپ کو پید ائشی حق ہے کہ آپ تھوڑی نیند لے لیں ۔ آپ کے ہم سفر کو نیند نہیں آرہی اس نے گنگنانا شروع کر دیا ، وہ بھی گنگنانا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے ۔ پھر دونو ں میں ذہنی تصادم شرو ع ہو گیا ، جب صبح ہو گی تو رات کو گنگنانے والے کو اب نیند نے ستایا۔ اب وہ سونا چاہتاہے اب آپ خود ہی فیصلہ کرلیجئے کہ اس آزادی میں پا بندی ضروری ہے یا نہیں ؟ اسی طرح جنسی آزادی کا بھی فیصلہ صادر فرما لیجئے ۔ یہ ضرور ہے کہ جنسی پا بندیو ں کو عائد کرنے سے قبل آپ کو خوب اچھی طر ح بڑی احتیا ط سے کام لینا ہو گا ، اہم بات یہ ہے کہ آپ ایک انتہا ئی تیز قسم کے تیزاب یا اسی طر ح کے کسی انتہا ئی جوش ما رتے ہو ئے رقیق قسم کے کیمیا ئی آمیزہ سے بھری ہو ئی بو تل کے منہ پر کیسے احتیا ط سے کا ر ک لگا تے ہیں ، زیا دہ ڈھیلی یا خوب کس کر ؟ اگر فرق ہو گا تو پھر یا تو کا ر ک ہی اڑ جائے گا ورنہ بو تل پھٹ کر چکنا چو ر ہو جائے گی ۔ قرآن کریم اور حدیث شر یف میں اسی وجہ سے صا ف ہدایت کر دی گئی ہے کہ اللہپاک اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہو ئی پابندیا ں ہما ری اور سب کی جنسی آزادی کے لیے مکمل ضابطہ حیا ت ہے ۔ انسانو ں کی بنا ئی ہوئی قانونی ازدواجی پا بندیا ں اس کے مقابلے میں بالکل غیر موثر اور نا کام ہو تی چلی آرہی ہیں ۔
” آزمو دہ را آزمو دن جہل است “ تمام مسلم سکالر ز اور روشن خیال دانشوروں نے اس کا اعترا ف کیا ہے کہ جنس ایک نہایت ہی سخت ، پیچیدہ اور سنگین مسئلہ ہے ۔ ہر شخص اپنی اپنی بے سری تا نیں الا پتا رہا ہے لیکن کسی نے بھی ابھی تک کوئی حتمی حل پیش نہیں کیا ۔ تمام نسلیں اسی جنسی مسئلہ کو گڈ مڈ کر تی چلی آئی ہیں اور اس کو پیچیدہ بنا دیا ہے ۔
صر ف اسلامی قانون اور احکا ما ت ایسے ہیں جو ایک مکمل ضا بطہ حیا ت اور نہا یت ہی کامیا ب حل پیش کر تے ہیں ۔ تحقیق کا فقدان کہیے یا تعصب کہ اسلامی نظام جنس کی معلوما ت حاصل کئے بغیر یو رپ کے بعض ما ہرین نفسیا ت بشمول سگمنڈ فرائڈ کا یہ خیا ل ہے کہ انسانی شخصیت کا سر چشمہ تعمیر یہی قوت جنسی ہے۔ اس کو قابو کرنے کے لیے انسان کے اپنے وضع کئے ہوئے قوانین اور احکاما ت نا فذ کیے جارہے ہیں تاکہ سماجی و اقتصادی ڈھا نچہ کو تبا ہ کئے بغیر افزائش نسل کا قدرتی سلسلہ جاری رکھا جاسکے ۔ اگر ان نا عا قبت اندیش انسانو ں کو یو نہی بے مہا ر چھوڑ دیا جائے تو انسان مالی تحفظ ، ذاتی تحفظ ، تحفظ حیات اور تحفظ اخلا ق سب ختم ہو کر جانورو ں کی سی زندگی گزارنے پر مجبو ر ہو جائے گا ۔ جیسا کہ آج کل بعض ممالک میں ننگو ں کی انجمنیں قائم کی جارہی ہیںاور ان پر جنگلیو ں کی سی زندگی گزارنے کا جنون سوار ہے ۔
آج کل انسان اسلامی نظام جنس کو یکسر فراموش کر دینے پر تلا ہو اہے ، کچھ لو گ ا سکے بھی قائل ہیں کہ تھوڑی بہت پا بندی جنسی افعال کے قابو کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ لیکن جنسی طاقت کو استعمال کرنے کے لیے کسی ضابطہ اور قاعدہ کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔یہ انسان اسلام کے جنسی نظام کو دیدہ دانستہ نظر انداز کر رہا ہے بلکہ اس سلسلہ میں کسی قسم کی رہنما ئی سے صاف انکا ر کرتا ہے۔ اپنی جسمانی و روحانی ، اخلا قی صحت کو بر باد کر رہا ہے اور اصل منبع صرف جنسی قوت کو سمجھا جا تا ہے ۔ لیکن زندگی کے مجموعی شعبہ کودیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض خام خیا لی ہے کہ جنس کو کسی حد تک محدود اور مر کو ز کر لیا جائے ۔ جنسی قوت تمام شعبہ جا ت پر اس وجہ سے غالب نہیں کہی جا سکتی کہ یہ افزائش نسل کا ذریعہ ہے تا ہم یہ اس کے محر کا ت میں سے صرف ایک معمولی او رعمومی قوت ضرور ہے لیکن دوسری اور بھی قوتیں ہیں جو انسانی زندگی کے لیے جنس سے بھی زیا دہ ضرور ی اور ابدی ہیں۔ بغیر جنسی قوت کے انسان زندہ رہ سکتا ہے تو پھر صرف جنسی قوت انسانی زندگی اور شخصیت کا منبع کیسے ہوا ؟ ہاں یہ ضرور ہو ا کہ عصرجدید نے ہماری شخصیت میں جنسی قوت کو خو ب ابھا را ہے اور ا سکا استحصال کیا ہے ، اس کے چند طریقے یہ ہو سکتے ہیں ۔
(1) ہر مردو عورت جنسی بھو ک اور قوت جنسی پر بے حجا ب بات چیت کھلے عام کرنے لگے ہیں اور اس قسم کی با تیں کرنے کو فیشن سمجھتے ہیں۔ اس طر ح اپنی دا نست میں وہ سو سا ئٹی کا وقار بلند کر رہے ہیں ۔ (2) جس کو دیکھئے یہی کہتا ہے کہ ہماری تہذیب و تمدن اور اساس اب تو اس قدر پریشان اور الجھ چکا ہے کہ ہر وقت طلاق دیتا ہے ،پھر رجو ع کر تا ہے توپھر طلا ق دے دیتا ہے اور پھر بھی جنسی آوارگی قابو میں نہیں آتی تو خوا ب آور گولیا ں کھا کھا کر غم غلط کرنے کی کو شش کر تاہے ۔ اکثر تو یہ گولیا ں زیادہ مقدار میں کھا کر یا زہر کھا کر کسی نہ کسی طر ح خود کشی بھی کر لیتے ہیں ۔(3) سب سے زیا دہ تشویش نا ک با ت یہ ہے کہ انسانیت کش سما ج دشمن انجمنیں بنائی جا رہی ہیں ، ادارے قائم کئے جا رہے ہیں اور معاشرے میں یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔ یہ سب مل کر خدمت خلق کے نا م پر جنسی تقاضو ں کو بھڑکانے اور گمراہی کے غار وں میں لے جانے کے لیے سر گرم ہیں اور محض معمولی مالی منفعت کی خا طر ، بہت سے قار ون صفت تا جر اپنی تجو ریا ں بھرنے اور بنک بیلنس بڑھا نے کی دھن میں ان معصوم نو جو انو ں کی جوانی سے کھیلتے ہیں اور ان کی جو ش ما رتی جوانی کو بھڑکا نے، چھلکانے اور غا رت کرنے کے لیے طرح طر ح کے منصو بے ، جھو ٹے دعوے اور پر فریب جھا نسے دیتے ہیں ۔ مثلا ً آرٹس کونسل ( یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ امریکن ڈاکٹر کہتے ہیں ) جس قدر اس عفریت نے گزشتہ پچا س سالوں میں شہرت حاصل کی ہے اتنی تو شائد ہی کبھی اس طبقے کے لو گو ں نے نہ کی ہو ۔ اس کے نتیجے میں اتنا بڑا ستم ڈھا یا جا رہا ہے کہ ہر تین نکا ح میں ایک ضرور طلا ق پر ختم ہو جا تا ہے ۔ کاروباری اعلا نا ت اور اشتہا را ت، اخبارات ، رسالے ریڈیو ، حتی کہ ٹی وی اور تمام طر ح کی نما ئشو ں اور ذرا ئع ابلا غ ، سبھی حر بو ں کو استعمال کر کے سا دہ لو ح ، پریشان حال لو گو ں کو بے وقوف بنا تے ہیں اور ان کے ذہنو ں میں وسوسے اور تشویش پیدا کر تے ہیں۔ پھر جب وہ دیکھتے ہیں کہ شکا ر پو ری طر ح پھنس گیا ہے اورقابو میں آگیا ہے تووہ ان کے ذریعے سے روپے بٹورتے ہیں ۔ حالا نکہ ان کو اچھی طر ح معلوم ہے کہ یہ بیچارے انتہا ئی شدید بیما ریو ں میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اکثر تو قانو نی شکنجے میں جکڑ دیے جا تے ہیں ۔ لیکن پھر بھی ان ظالموں کو ان پر تر س نہیں آتا۔ بعض نو جوان (یا ذہنی نا با لغ ، ادھیڑ عمر اور بوڑھے ) جو خود کو نفسیا تی کمزور ی میں مبتلا سمجھنے لگتے ہیں اور ا س کو شش میں ہیں کہ شائد ان کی جنسی آسو دگی کے لیے کوئی ما لی امداد یا اس سے مطا بقت کرنے کا کوئی موقع اور قوت مل جائے۔ اس آرزو میں وہ کسی رسالے یا جریدے کو جب کھو لتے ہیں تو ان کو ہر صفحہ پر خو ب پُر جو ش اور بالکل از سر نو نئی جوانی واپس لانے اور سو فی صد تقاضو ں کو پو راکر نے والا ، سُر خ رو اور شا د کام کرنے والا معجون ، حلو ہ، قوی با ہ یا انجوائے کورس اور بے ضرر طلا ءاور عورتو ں کے بانجھ پن ، جمو د ، سر د مہر ی کو متحرک اور تمتما ہٹ پیدا کرنے والی دوائیں ” ما یو س مریضو ں کی آس “ ۔ ”مایو سی حرام ہے “ ۔ ”اولا د سے محرومی کیو ں “ ؟ ” آئیے ہم اللہ کے حکم سے گو د بھر دیں ۔“ ”ازدواجی زندگی سے ما یو س اور شر مندہ مر د اور عورت کو محض ایک ہفتہ میں کامیابی سے ہمکنار کرنے وا لا کو ر س “ ”بوڑھو ں کو جوان بنانے کے لیے ہم سے رجو ع کر یں “ وغیرہ اشتہا را ت کی بھر ما ر ملے گی اور ایسے ایسے پُر کشش اور مسحو رکن الفا ظ سے آراستہ و مر صع کہ پڑھتے ہی ان دواﺅ ں کو خریدنے کو جی للچائے ۔ فو راً خرید لیتے ہیں اور بغیر سو چے سمجھے شروع کر دیتے ہیں ان دواﺅں سے شائد تھوڑی دیر کے لیے جوش بھڑکتا بھی ہو لیکن پھر اس کے بعد بوتل کا کا رک اور تما م جو ش جھا گ بن کر اڑجاتا ہے اور بو تل خالی کی خالی ۔ اس سے بھی زیا دہ ستم ظریف نام نہا د پیرو ں ، فقیرو ں ، عاملو ں اور روحانی طبیبوں کا گروہ ہو تا ہے جن کا اشتہا ر آپ اس طر ح پڑھتے رہے ہو ں گے ” محبوب آپ کے قدموں میں ، کسی قسم کے گھریلو جھگڑو ں ، نا مر دی ، بانجھ پن ، اولا د کا نہ ہو نا ، ہر مرا د پوری ہو گی ، ایک با ر آزما ئش شر ط ہے “ وغیرہ ، غرضیکہ جس طرح ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی لُو بڑھا تے جا ئیے اور وہ بھڑک بھڑک کر آخر ٹھنڈا ہو جا تاہے بس اس طر ح یہ کم بخت ، ظالم پیشہ ور تا جر ،لو گو ں کو ٹھنڈا کر تے رہتے ہیں اور شائد ہی کوئی ایسا خوش قسمت ہو جو انکے فریب میں ایک مر تبہ نہ پھنسا ہو ۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ ملک کا پڑھا لکھا اور با شعور طبقہ آگے بڑھ کر اپنا کر دار ادا کرے ۔ دین اسلام نے انسانی زندگی کا کوئی گو شہ ایسا نہیں چھوڑا کہ جس کے بارے میں راہیں متعین نہ کی ہوں اور ملک میں ایسے دانشوروں کی بھی کمی نہیں ہے جو صحیح اسلامی قواعد و ضوا بط سے آگا ہ ہیں۔ پھر یہ جنسی علم کوئی ایسا علم بھی نہیں ہے کہ جس پر بات کرنے سے گنا ہ سرزد ہونے کا احتمال ہو ۔ مسئلہ صرف جرا ت سے کام لینے کا ہے اور اپنے دلوں میں صحیح جذبو ں کو اجاگر کرنے کا ہے ۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 466
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں